14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 29
منزل عشق قسط 29
عماد وانیا کو آج سکردو گھمانے لے کر گیا تھا اور وہ دونوں سارا دن ان خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے بعد ابھی لوٹے تھے۔
"عماد بھوک لگی ہے بہت۔۔۔"
وانیا نے لاڈ سے اسکے پاس آ کر کہا تو عماد مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
"تو بنا لو کچھ دونوں کھاتے ہیں۔۔۔۔"
عماد کی بات پر وانیا نے اسے منہ بنا کر دیکھا۔
"آپ کو پتہ بھی ہے کہ مجھے کچھ پکانا نہیں آتا۔۔۔آپ پھر سے آلو کے چاول بنائیں ناں سچی بہت مزے کے بناتے ہیں۔۔۔"
وانیا نے اسکے گال کھینچ کر کہا۔
"اف ماڑا اس دنیا کا سب سے نکما بیوی تھا میرے نصیب میں۔۔ "
عماد نے راگا کے انداز میں کہا تو وانیا کھلکھلا کر ہنس دی۔اسکی خوبصورت ہنسی کو دیکھ عماد اسکے پاس آیا اور کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیا۔
"بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟"
وانیا اچانک ہی اسکی قربت پر گھبرائی۔
"کک۔۔۔کیا چاہیے آپ کو؟"
"کچھ میٹھا۔۔۔۔"
عماد نے اسکے ہونٹ انگوٹھے سے سہلا کر کہا جبکہ اسکی نظروں کی تپش وانیا کو بے چین کر رہی تھی۔
"اگر مجھے چاولوں کا مزہ آیا تو،نہیں تو کچھ نہیں ملے گا۔۔۔"
عماد اسکے کھلے چیلنج پر شان سے مسکرا کر کھانا بنانے لگا اور وانیا نے سوچ لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ کھانے کو برا ہی کہے گی لیکن یہ صرف اسکا خیال تھا کیونکہ جب عماد نے چاول تیار کر کے اسکے سامنے رکھے تو پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی اسکی آنکھیں کھانے کی لذت کو محسوس کرتے بند ہو چکی تھیں۔
"کیسا ہے؟"
"اففف۔۔۔بہت اچھا آرمی میں کھانا پکانا بھی سکھاتے ہیں کیا؟"
وانیا نے جلدی جلدی چاول کھاتے ہوئے پوچھا۔
"ٹھیک ہے پھر جلدی سے کھا لو تا کہ میں اپنی جلیبی کھا سکوں۔۔۔۔"
عماد کی شرط یاد کرتے ہی وانیا کا سانس اٹکا اور اس نے بوکھلا کر عماد کو دیکھا۔
"ننن۔۔۔۔نہیں بالکل بھی اچھے نہیں یہ زرا مزا نہیں آیا۔۔۔"
وانیا نے منہ بنا کر چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تو عماد قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"افف ماڑا میری افغان جلیبی کی معصومیت جان لے لے گی اس جن کی۔۔۔"
عماد نے وانیا کے قریب ہونا چاہا۔وانیا نے اسے گھور کر دیکھا۔
"کھانا کھانے دیں۔۔۔"
عماد ہنس دیا اور شرافت سے اسکے کھانا کھانے کا انتظار کرنے لگا۔
"آپ بھی کھا لیں کچھ یا بس کھڑے ہو کر مجھے گھورتے رہیں گے؟"
ہانیہ نے اس کی نظروں کی تپش سے جھنجھلا کر کہا۔
"بتایا تو تھا افغان جلیبی کہ مجھے بس تمہاری طلب ہے ایک بار خود کو کھانے دو گی تو اور کچھ نہیں چاہوں گا میں۔۔۔"
عماد کی بات پر وانیا خود میں سمٹ گئی۔
"بہت بے حیا ہیں آپ۔۔۔"
اس نے کھانے کی پلیٹ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا عماد نے آگے بڑھ کر اسے اپنی باہوں میں بھرا تھا۔
"بے حیائی تو ابھی شروع بھی نہیں کی ماڑا تم پہلے ہی گھبرا گیا۔کل تو جو تم نے دیکھا تھا وہ میری محبت تھی آج تمہیں پتہ چلے گا کہ میرا جنون کیا ہے۔"
عماد نے اتنا کہہ کر اسکے گال کو کاٹا۔
"عماد باہر چلتے ہیں ناں پلیز ابھی پھر سے سنو فال ہو رہا ہو گا۔۔۔"
وانیا نے نظریں جھکا کر فرمائش کی تو عماد نے اپنی گرم چادر پکڑی اور وانیا کے ساتھ انکی فیورٹ بالکونی میں آ گیا۔
عماد وہاں موجود کرسی پر بیٹھا اور وانیا کو خود پر بیٹھا کر وہ گرم چادر دونوں کے گرد لپیٹ دی۔
"عماد۔۔۔"
"ہممم ۔۔۔۔"
عماد کے سینے سے لگے وانیا نے اسے بہت محبت سے پکارا تو عماد بھی سکون سے اپنی آنکھیں موند گیا۔
"اگر آپ آرمی میں نہیں ہوتے اور اصلی راگا آپ ہی ہوتے تو کیا آپ سچ میں مجھے کبھی یہاں سے جانے نہیں دیتے؟"
عماد کے ہونٹوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا۔
"نہیں کبھی نہیں وانیا کیونکہ تم صرف میری محبت اور سکون ہی نہیں تم میرا جنون بھی ہو۔۔۔"
عماد نے ہونٹ اسکے بالوں پر رکھ کر کہا۔
"اور کیا اگر اصلی راگا میں ہی ہوتا تو بھی تم مجھے گولی مار دیتی؟"
وانیا نے شرارتی نگاہوں سے عماد کو دیکھا۔
"یہ تو میں نے گولی مار کر ثابت کر دیا تھا کیونکہ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ آپ نہیں ہیں۔۔۔"
"اف ظالم گولی کی کیا ضرورت ہے ماڑا پیار سے دیکھنا بس مجھے تیرا یہ راگا ان نظروں کے تیر سے ہی مر جائے گا۔۔۔"
عماد نے پھر سے راگا کی آواز میں کہا تو ایک خیال کے تحت وانیا نے شرارت سے اسے دیکھا۔
"عماد کیا آپ جس کی چاہیں آواز کاپی کر سکتے ہیں؟"
"بالکل۔۔۔"
عماد نے شان سے اپنا کالر جھاڑتے ہوئے کہا۔
"چلیں پھر عاطف اسلم کی آواز میں گا کر سنائیں مجھے۔۔۔"
وانیا کی اس عجیب سی فرمائش پر عماد نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"یہ کیا بات ہوئی؟"
"یہی بات ہوئی چلیں اب سنائیں مجھے عاطف اسلم کی آواز میں گانا۔۔۔"
عماد نے عاطف اسلم کی آواز یاد کرنی چاہی لیکن پھر کچھ اور ہی یاد آنے پر مسکرا دیا۔
"مجھے اپنے سرہانے پہ تھوڑی سی جگہ دے دو
مجھے نیند نہ آنے کی کوئی تو وجہ دے دو۔۔۔"
عماد نے بہت پیاری سی آواز میں گنگنایا تھا۔
"یہ عاطف اسلم کی آواز تو نہیں اور نہ ہی اسکا گانا ہے یہ۔ "
وانیا نے منہ بنا کر کہا۔
"مجھے فرق نہیں پڑتا یہ اس کا گانا ہے یا نہیں لیکن اس وقت میرے جزبات یہی ہیں اور اس سے پہلے کے جزبات میں بہہ کر یہیں شروع ہو جاؤں اپنے لاڈ دیکھانا بند کرو مجھے اور کمرے میں چل کر میری منمانیاں سہو اب۔۔۔"
عماد نے یہ کہتے ہوئے اسکا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں لیا تھا۔
"بہت ہی بے شرم ہیں آپ۔۔ "
وانیا نے خود میں سمٹتے ہوئے کہا۔عماد اب اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر کمرے میں لے جانے لگا۔
"اور یہ بے شرمی بہت عزیز ہے مجھے۔۔۔"
عماد نے مسکرا کر کہتے ہوئے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا۔وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ کوئی بہت دور کھڑا ان کی خوشیوں کو چبھتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"تجھے کیا لگا فوجی راگا بن کر ہمیں برباد کر دے گا اور خود عیاشی کرے گا۔۔۔ہوں تیری یہ خوشیاں بہت جلد ماتم میں بدل دوں گا وعدہ ہے یہ کمار شنکر کا۔۔۔"
کال نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا۔وہ ہمسایہ ملک کا جاسوس تھا جو راگا اور ویرہ کے ساتھ مل کر اس ملک کو برباد کرنے آیا تھا لیکن اب اسکا بس ایک ہی مقصد تھا۔عماد سے اسکی ساری خوشیاں،اسکی وانیا کو چھیننا۔
❤️❤️❤️❤️
جنت کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو ایک الگ ہی جگہ پر پایا۔یہ دیکھ کر وہ کافی حیران ہوئی کیونکہ وہ تو سالار کے کمرے میں تھی اور اس نے بس ایک گلاس پانی پیا تھا پھر وہ گہری نیند میں سو گئی۔
جنت نے حیرت سے اس کمرے کو دیکھا جس میں وہ موجود تھی پھر اسکی نظر کمرے میں داخل ہوتے سالار پر پڑی۔
"کہاں لے آئے ہیں آپ مجھے ؟"
سالار بس شان سے مسکرا کر اس کے پاس آیا۔
"باقی سب سے بہت دور جہاں صرف تم ہو اور میں تیسرے کی گنجائش نہیں ہمارے درمیان۔۔ "
اس کے پاس بیٹھ کر سالار نے اس کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے لیکن جنت فوراً اس سے دور ہوئی تھی۔
"نہیں رہنا مجھے آپ جیسے شخص کے پاس ۔۔۔بہت بڑی غلطی ہوگئی مجھ سے آپ پر بھروسہ کر کے آپ مجھے میرے بابا کے پاس چھوڑ آئیں۔"
جنت نے روتے ہوئے کہا لیکن سالار نے بس اسکے آنسو پونچھے اور محبت سے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے۔
"یہ ناممکن ہے بے بی گرل اب تم یہ سمجھو کہ تمہاری رخصتی ہو چکی ہے بلکہ اب تو رخصتی کے بعد والا پروسیس سٹارٹ کرنا چاہیے ہمیں ۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ جنت اسکی بات کا مطلب سمجھتی سالار اسکے ہونٹوں پر جھک کر اسے بیڈ پر لیٹا چکا تھا۔جنت نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر مزاحمت کرنا چاہی تو سالار نے اسکے ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
پھر جنت کے آنسو اپنے چہرے پر محسوس کرتا وہ پیچھے ہٹا تھا۔
"کیا بات ہے جنت جس سے تم نے محبت کی آج اسکا ہونا ہی تمہیں گراں گزر رہا ہے۔"
سالار نے اسکا معصوم چہرہ نظروں کے حصار میں لے کر کہا۔وہ جو جنت کی تمام محبت اپنے لیے چاہتا تھا اسکی بے رخی کیسے برداشت کر رہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔
"پہلے مجھے لگتا تھا کہ آپ اچھے ہیں اس لیے محبت کی میں نے آپ سے نہیں جانتی تھی کہ آپ ایسے نکلیں گے۔۔۔"
سالار جنت کی بات پر تلخی سے مسکرایا۔
"کردار دیکھ کر محبت کرنا بھی کوئی محبت ہوئی ؟یہ تو سودے بازی ہوئی ناں جاناں جو تم نے دل سے نہیں بلکہ اپنے دماغ سے کی۔۔۔محبت جب دل سے ہوتی ہیں ناں وہ شکل و صورت اور کردار کو نہیں دیکھتی۔۔۔"
سالار نے اتنا کہہ کر اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔جنت کی سنہری آنکھیں بے بسی سے بہہ نکلیں۔
"کچھ بھی ہو جائے میں ایک قاتل کو نہیں چاہ سکتی۔۔۔میرا دل ہی مجھے اسکی اجازت نہیں دیتا۔۔۔پلیز آپ مجھے چھوڑ دیں سالار۔۔۔۔"
اور کچھ تو نہیں لیکن یہ چھوڑنے والی بات پر سالار نے اسکی نازک گردن کو اپنے ہاتھ میں دبوچا۔
"مجھ سے رہائی صرف موت کی صورت میں ممکن ہے اس کے علاوہ کبھی مت سوچنا کہ چھوڑوں گا تمہیں اور یاد رکھنا جنت کہ ہر کوئی جان اپنے مفاد کے لیے نہیں لیتا بلکہ لوگ اس لیے بھی لیتے ہیں کہ اس دنیا سے کچھ شیطانوں کو کم کر سکیں۔۔۔"
سالار اس سے دور ہوا تو جنت بیٹھ کر خود میں ہی سمٹ گئی۔
"اگر برے لوگوں کو مارنے والا برا ہوتا ہے ناں تو ہر سپاہی ہر مجاہد برا ہے۔۔۔"
جنت بس خاموشی سے سالار کی بات سن رہی تھی۔
"جا رہا ہوں میں اور اب تب ہی تمہارے قریب آؤں گا جب میری بات کا مطلب سمجھ کر تم خود مجھے اپنے قریب بلاؤ گی۔۔۔"
سالار اتنا کہہ کر کمرے سے نکل گیا اور جنت خود میں ہی سمٹ کر روتی چلی جا رہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسکی باتوں کا یقین کرے جس سے وہ خود سے بھی زیادہ چاہتی ہے یا دنیا کا جو اسے ایک مونسٹر پکارتی ہے۔
❤️❤️❤️❤️
خادم عرفان کو لے کر بہت زیادہ پریشان تھا جو کل سے غائب تھا اور اس سے بھی زیادہ پریشانی اسے ایمان اور معراج کی تھی۔
"کچھ پتہ چلا کہاں ہیں وہ لوگ؟"
خادم صبح سے کوئی 40 مرتبہ اپنے سکیورٹی ہیڈ سے یہ سوال پوچھ چکا تھا۔
"نہیں سر ابھی تک ہمیں ان کی کوئی خبر نہیں ملی جیسے ہی ملے گی سب سے پہلے آپ کو بتائیں گے۔"
اپنے سیکیورٹی ہیڈ کی بات پر خادم نے ہاں میں سر ہلایا اور کرسی پر بیٹھ کر انگلیاں چٹخانے لگا۔
کہیں عرفان نے ہی تو ایمان اور معراج کو کڈنیپ کروا لیا تاکہ ایمان کی دولت پر خود قابض ہو سکے۔۔۔
یہ سوچ دماغ میں آتے ہی خادم نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر یہ سازش عرفان کی ہوئی تو وہ خود اسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔
"سر یہ پارسل کوئی آپ کے لیے چھوڑ کر گیا ہے۔۔۔"
اپنے ایک ملازم کی آواز پر خادم خیالوں کی دنیا سے باہر آیا اور اس کے ہاتھ سے وہ پارسل پکڑا۔اس پارسل میں بس ایک پین ڈرائیو تھی۔خادم نے اسے لیپ ٹاپ کے ساتھ کنیکٹ کیا تو ایک وڈیو میں اسے ایمان اور معراج بے ہوش نظر آئے۔
"کیا ہو گیا خادم اپنی بیٹی اور داماد کو ڈھونڈ کر ہلکان ہو رہے ہو ناں۔۔۔فکر مت کرو دونوں میرے پاس با حفاظت ہیں لیکن کب تک رہیں گے یہ میں بھی نہیں بتا سکتا۔۔۔۔"
خادم اپنی مٹھیاں بھینچے اس سبز آنکھوں والے سکندر کو دیکھ رہا تھا جو شان سے کرسی پر بیٹھا اپنی بات کہہ رہا تھا۔
"اگر چاہتے ہو کہ دونوں تمہیں زندہ ملیں تو کل صبح اپنے چاولوں کے گودام میں آ جانا۔۔۔آمنے سامنے بات کریں گے۔۔۔"
سکندر نے کرسی سے اٹھ کر کیمرے کے پاس آتے ہوئے کہا۔
"اور اگر ہوشیاری کی تو تمہاری بیٹی کو اٹھارہ کے ہونے سے پہلے ہی مار دوں گا اور یہ بات ہم دونوں جانتے ہیں کہ اس کا اٹھارہ کا ہونا تمہارے لیے کتنا قیمتی ہے۔۔۔"
خادم سکندر کی آنکھوں میں چھپی مسکراہٹ محسوس کر سکتا تھا۔ویڈیو ختم ہونے کے بعد خادم نے غصے سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور فرش پر پٹخ کر توڑ دیا۔
"نہیں چھوڑوں گا تمہیں سکندر۔۔۔۔۔مجھے پھنسانے کا سوچ رہے ہو نا تم دیکھنا کل کا دن تمہارا زمین پر آخری دن نہ بنا دیا تو میں بھی سلطان نہیں۔۔۔"
خادم نے وحشت سے کہا اور موبائل نکال کر اپنے خاص ادمی جو کال کی۔
"میری چاولوں کی مل میں ریموٹ کنٹرول بم لگا دو اور اس کا ریموٹ مجھے چاہیے۔۔۔"
"جی سر۔۔۔"
اس کے آدمی نے حامی بھری تو خادم نے موبائل بند کیا اور شان سے مسکرا دیا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ کل وہ اس سکندر کا کام تمام کر دے گا۔
❤️❤️❤️❤️
صبح انس اپنے آفس داخل ہوا تو سامنے اپنی کرسی پر ہانیہ کو بیٹھا دیکھ حیران ہوا جو شان سے اسکی ٹوپی اپنے سر پر پہنے پاؤں ٹیبل پر رکھے ببل چبا رہی تھی۔
"تم یہاں کب اور کیسے آئی؟"
انس نے حیرت سے پوچھا۔
"میں حنہ آپی کے ساتھ آئی تھی شادی کی شاپنگ کرنے لیکن سوچا کہ میرے ہزبینڈ کو تو میرے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تو کیوں نا خود ہی اپنی موجودگی کا احساس دلا دوں۔۔۔۔"
ہانیہ نے مسکرا کر کہا تو انس اسکے پاس آیا اور اپنے دونوں کرسی کے بازوؤں پر رکھ کر ہانیہ کو اپنے گھیرے میں لیا۔
"اور تمہیں ایسا کیوں لگا کہ تمہارا یہ شوہر تم سے غافل بھی ہو سکتا ہے؟"
انس نے محبت سے اسکی ناک کھینچی تھی۔
"دو دن ہوئے ہیں ہمارے نکاح کو اور آپ نے کال تک کرنا گوارہ نہیں کیا اب مجھے تو یہی لگے گا ناں کہ آپ نئی نویلی بیوی سے ہی اکتا گئے ہیں۔۔۔"
ہانیہ نے اسکے کالے یونیفارم کی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئے کہا اور انس کو افسوس ہوا کیونکہ سکندر کو پکڑنے کے جنون میں حد سے زیادہ ہی مصروف ہوگیا تھا۔
"کتنا اکتایا ہوں تم سے ابھی بتاتا ہوں۔۔۔"
انس ہانیہ کے ہونٹوں کے قریب ہو گیا تو ہانیہ نے گھبرا کر اپنی آنکھیں موند لیں۔
"سر ۔۔۔"
اپنے کانسٹیبل کی آواز پر انس ہانیہ سے دور ہوا اور دروازے میں کھڑے کانسٹیبل کو دیکھا جو ان دونوں کو ہڑبڑا کر دیکھ رہا تھا۔
"ہانیہ تم باہر ویٹ کرو میں دس منٹ میں فارغ ہو کر آتا ہوں۔۔۔"
ہانیہ جو مارے شرم کے سرخ ہوتی جا رہی تھی گدھے کے سروں سے سینگ کی طرح وہاں سے غائب ہو گئی۔
"ہاں بولو ہادی۔۔۔"
انس نے کرسی پر بیٹھ کر کانسٹیبل کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"سر آپ کے کہنے پر میں نے خادم شفیق پر نظر رکھی تھی۔"
انس نے ہاں میں سر ہلایا کیونکہ اس نے اسے اتنے بڑے سیاستدان کی جاسوسی پر لگایا تھا۔انس کو یہ معلوم ہوا کہ جتنے لوگوں کو بھی سکندر نے مارا تھا ان کا تعلق بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر خادم سے ضرور تھا۔اس لیے ضرور خادم ہی سکندر کا اگلا نشانہ تھا۔
"سر ایک آدمی نے انکی بیٹی کو کڈنیپ کر کے انہیں انکی مل میں بلایا ہے اور وہ آدمی کوئی اور نہیں سکندر ہے۔۔۔"
کانسٹیبل کی بات پر انس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"اگر خادم شفیق کی بیٹی کو کڈنیپ کیا گیا ہے تو وہ پولیس کے پاس کیوں نہیں آئے؟"
انس کے سوال پر کانسٹیبل بھی سوچ میں ڈوب گیا۔
"ہو سکتا ہے سر وہ ڈر گئے ہوں سکندر سے یا اسکا معاملہ خود طے کرنا چاہ رہے ہوں۔۔۔۔"
انس نے ہاں میں سر ہلایا۔
"سر میرے خیال سے ہمیں خادم سر کو وہاں جانے سے روکنا چاہیے اور انہیں پروٹیکشن دینی چاہیے۔۔۔۔"
انس نے کچھ دیر اس بات پر غور کیا پھر انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں ہادی ہم سکندر کی یہ چال الٹا اس پر ہی ڈال دیں گے۔۔۔کل ہم لوگ وہاں چھپ کر انکا انتظار کریں گے اور سکندر کے وہاں آنے پر اسے اریسٹ کر لیں گے۔۔۔۔"
کانسٹیبل نے بھی مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔
"تم میری ٹیم کو تیار رہنے کا کہو ۔۔۔"
انس نے اٹھ کر گاڑی کی چابیاں پکڑتے ہوئے کہا۔
"آپ کہیں جا رہے ہیں سر؟"
"ہاں یار تمہاری بھابھی کو شادی کی شاپنگ کروانی ہے تم جانتے نہیں اسے اگر آج شاپنگ پر نہ لے کر گیا اسے تو خود سکندر بن کر جان لے لے گی میری۔۔۔۔"
انس کے شرارت سے کہنے پر کانسٹیبل ہنس دیا۔انس بھی مسکراتے ہوئے ہانیہ کے پاس چلا گیا جو باہر اسکا انتظار کر رہی تھی۔انس مطمیئن تھا کیونکہ کچھ بھی ہو جاتا کل سکندر کو اسکی گرفت میں ہونا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
"عماد۔۔۔۔"
عماد کی آنکھ وانیا کے رونے کی آواز پر کھلی تو اس نے جلدی سے اٹھ کر حیرت سے وانیا کو دیکھا جو ایک آدمی کی گرفت میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی جبکہ چھ سے سات آدمی عماد پر بندوقیں تانے کھڑے تھے۔
"کیسے ہو عماد بنگش یا میں یہ کہوں نقلی راگا۔۔۔"
کال کی آواز پر عماد نے دروازے کے پاس کھڑے کال کو دیکھا جو شان سے مسکرا رہا تھا۔
"کال ۔۔۔۔"
عماد نے گھبرا کر وانیا کو دیکھا جو کال کے آدمی کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے مچل رہی تھی۔عماد نے فوراً بیڈ سے اترنا چاہا۔
"آں ہاں۔۔۔ایسی غلطی مت کرنا فوجی ورنہ تمہاری پیاری سی بیوی کی لاش ہو گی زمین پر سور تم بس دیکھتے رہ جاؤ گے۔۔۔جہاں ہو ناں وہیں رہو۔۔۔"
کال کی دھمکی پر عماد واپس خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"یاد ہے نقلی راگا تو نے ہاتھ کاٹ دیا تھا میرا کیونکہ میں نے اسے چھوا تھا۔۔۔"
کال نے اپنا کٹا ہوا ہاتھ عماد کے سامنے کیا۔
"اب اسے میں چھونے کے قابل تو نہیں رہا لیکن فکر نہ کر میرے یہ آدمی کس دن کام آئیں گے۔۔۔"
کال اتنا کہہ کر ہنسنے لگا اور دروازے سے ہٹ کر وانیا کے قریب آیا جو بس خوف سے کانپتے ہوئے روتی جا رہی تھی۔
"جس وجود پر تجھے میرا لمس گوارا نہیں ہوا تھا نقلی راگا آج اس وجود کو میرے آدمی ادھیڑ کر رکھ دیں گے اور تو بس بے بسی سے وہاں بیٹھا دیکھتا رہ جائے گا ۔۔۔"
کال کے کھلے چیلنج پر وانیا کا سانس اسکے حلق میں اٹک چکا تھا۔وانیا کو پکڑے آدمی نے اپنا ہاتھ اسکے دوپٹے کی جانب کیا تو عماد نے بیڈ سے اٹھنا چاہا لیکن بہت سی بندوقوں کا رخ عماد کی جانب ہوا۔
"ہاہاہاہا اب آئے گا ناں مزہ۔۔۔۔شروع ہو جاؤ۔۔۔"
کال نے اپنے آدمی سے کہا تو وہ اس نے وانیا کا دوپٹہ اپنے ہاتھ میں پکڑا۔وانیا بس ایک چیخ کے ساتھ اپنی آنکھیں میچ گئی تھی اور عماد بے بسی سے بیڈ پر بیٹھا اپنی مٹھیاں بھینچتا رہ گیا